* میری تنہائیوں میں رات گئے چپکے سے *
میری تنہائیوں میں رات گئے چپکے سے
اَن کہے جذبے فضائوں میں بکھر جاتے ہیں
ایک بے نام خلش دل میں جگہ کرتی ہے
موسمِ یاد کے سب رنگ نکھر جاتے ہیں
ایسے لمحے جو سمندر کی طرح گہرے ہوں
ساحلِ زیست سے ٹکرا کے کدھر جاتے ہیں
میلے لگتے ہیں خیالوں میں تری یادوں کے
خواب آئینے سنورتے ہیں بکھر جاتے ہیں
کتنے شیریں ہیں تری یاد کے کومل لمحے
غمِ دنیا کے ہر اِک زخم کو بھر جاتے ہیں
بند آنکھوں سے تصور نے کیا ہے وہ جہاں
قلب و جاں جس میں ٹھہرتے ہیں گزر جاتے ہیں
******
|