* رات کی سیاہی میں چاند مسکراتا ہے *
رات کی سیاہی میں چاند مسکراتا ہے
جھیل کے کنارے پر لہریے بناتا ہے
اک چراغ روشن ہے آج شب ہوائوں میں
دیکھیے بھلا کتنی دیر ٹمٹماتا ہے
رہزنوں سے کیا ڈرنا آج کل تو گھر میں بھی
کوئی لوٹ لیتا ہے، کوئی لٹ کے جاتا ہے
بات کچھ ادھوری تھی سلسلہ کہاں ٹوٹا
دُھند میں خیالوں کی کوئی گیت گاتا ہے
کیا کہیں اچانک کب دل کے تار بج اٹھیں
ذہن کی رسائی میں کون کب سماتا ہے
روشنی کی سرحد پر، صبح سے ذرا پہلے
آخری ستارے کا عکس ڈوب جاتا ہے
*****
|