* تو میری ہے *
تو میری ہے
میں رات دن اُن سے پوچھتی ہوں
مرا ترا واسطہ ہی کیا ہے؟
وہ مسکرا کے نظر جھکا کے
خموش آنکھوں سے دیکھتے ہیں
ہزار شمعوں کو دل اپنے چھپا کے
ہنس کر یہ سوچتے ہیں
”یہ بھولی لڑکی یہ نا سمجھ سی
نہیں سمجھتی نہ جانتی ہے
کہ سنگ ریزے جو بہہ رہے ہیں
سمندروں کی تہوں کے نیچے
چھبے ہیں ُان میں ہزارموتی
ہزار یاقوت اور مونگے
یہ سب میں چاہوں تو اس کو دے دوں
اسے دلہن کی طرح سجا دوں
مگر خیال آرہا ہے مجھ کو
کہ میری الفت ،میری محبت
کسی بھنور میں کسی سفر میں
بہت اچانک ہی کھو نہ جائے”
میں چاہتی ہوں کہ ان سے کہہ دوں
میں ایک عورت میں اک پہیلی
بہت ہی آسان ہوں سمجھنا
مجھے نہ تولو زمین و زر سے
مجھے فقط اک نگاہ دے دو
جو مجھ سے کہہ دے،”میں جانتا ہوں
میں مانتا ہوں کہ تو مری ہے
فقط مری ہے!”
شائستہ مفتی
|