* بارِ خاطر محبتوں کے عذاب *
بارِ خاطر محبتوں کے عذاب
وہ محبت جو میں نے کی ہی نہیں
ہوں پشیمان اُس کہانی سے
وہ کہانی جو میں نے جی ہی نہیں
پھیلتی جارہی ہے مدہوشی
گرچہ میں نے شراب پی ہی نہیں
جان کا سود، غم کا سودا تھا
زندگی مستعار لی ہی نہیں
کس قدر تلخ ہے وفا کرنا!
میرے لہجے میں چاشنی ہی نہیں
خالی آنکھوں سے ڈھونڈتے کیا ہو؟
زندگی اب وہ زندگی ہی نہیں
ہے اندھیرا مری نگاہوں میں
اِن چراغوں میں روشنی ہی نہیں
تم جسے گنگنارہے ہو ابھی
یہ مرے دل کی راگنی ہی نہیں
خواب جب سے ہوئے خفا ہم سے
نیند میں اب وہ دلکشی ہی نہیں
*****
|