* راستہ تھا جنگل کا اور دل کی تنہائی *
راستہ تھا جنگل کا اور دل کی تنہائی
ذات سے مخاطب تھی چاند کی شناسائی
بے سبب تھی بے چینی، بے سبب اُداسی تھی
دُور سے ہوائوں نے چھیڑ دی تھی شہنائی
رات کے سفیروں نے روشنی کا ُجل دے کر
آنگنوں میں رکھ دی ہے اِک مہیب گیرائی
جنگلوں میں انساں کے یوں تو دوست ہیں میرے
ایک وہ سمجھتا ہے میرے دل کی گہرائی
موسموں کے افسانے بارشوں نے لکھے تھے
بہہ کے آنکھ سے کاجل بن گیا تھا رسوائی
بادلوں نے گھیرا ہے چاند کو محبت سے
گھٹ کے مر نہیں جائیں روشنی کے شیدائی
*****
|