* اس زندگی پہ قرضِ تمنا ہی لے چلیں *
اس زندگی پہ قرضِ تمنا ہی لے چلیں
جاتی بہار کا غمِ فردا ہی لے چلیں
لے کر چلیں امنگوں کا اِک سیلِ بے کراں
دل میںترے خیال کا صحرا ہی لے چلیں
اپنا کہیں بھی کوئی ستارہ نہیں ملا
بے نام آسماں کا ستارہ ہی لے چلیں
کوئی نہیں ہے ایسا کہ اپنا کہیں جسے
آنکھوں میں ایک صورتِ زیبا ہی لے چلیں
تاریک راستے ہیں بھٹکتی ہے غم کی شام
اشکوں میں روشنی کا اجالا ہی لے چلیں
عمرِ عزیز تیری کہانی ہوئی تمام
ناکام حوصلوں کا خلاصہ ہی لے چلیں
*****
|