* دکھوں میں جل کے گہر کی طرح چمکنے دو *
دکھوں میں جل کے گہر کی طرح چمکنے دو
نیا نیا ہے ابھی غم ذرا بکھرنے دو
مری تلاش میں پھرتی ہے اِک صدائے دشت
اے مجھ سے بچھڑی صدائو— مجھے بھٹکنے دو
نہ جانے اب کے برس تیرا ساتھ ہو کہ ہو
اے میرے دیس کی خوشبو مجھے مہکنے دو
یہ رات ہے کہ مری روح میں سمائی ہے
ہوائے سرد مرا اِک چراغ جلنے دو
مرا وجود ہے صحرائوں کے سرابوں سا
صدائے دشت مری پیاس اور بڑھنے دو
میں راستے میں پڑی خاک سے سنور جائوں
ذرا نمود کی روشن ہوائیں چلنے دو
*****
|