* کس قدر رنگ ہیں پنہاں تری تصویروں م *
کس قدر رنگ ہیں پنہاں تری تصویروں میں
خواب در خواب سمیٹے ہوئے تعبیروں میں
چھیڑ جاتی ہے ہوا پھر کسی دیوانے کو
رقصِ پیہم کی صدا آتی ہے زنجیروں میں
دن ڈھلے ہم بھی کسی کنج میں چھپ جاتے ہیں
ڈھونڈتی پھرتی ہے وحشت ہمیں رہ گیروں میں
میں نے سوچا ہے کہ وسعت کو سمیٹوں خود میں
آسماں ڈھونڈنے نکلے مجھے تقدیروں میں
میری آنکھوں میں اُنھیں بجلیاں تڑپاتی ہیں
ڈر ہے کھل جائیں کہیں راز نہ تحریروں میں
***** |