* خشک دریائوں کی مانند ہیں آنکھیں م® *
خشک دریائوں کی مانند ہیں آنکھیں میری
یوں الجھتی ہیں ہر اِک سیپ میں سانسیں میری
جیسے دریا میں اُتر آیا ہو صحرا کا عذاب
ایک ُپرہول ہنسی ہنستی ہیں راتیں میری
ہیں ہر اِک سنگ میں شورش کے زمانے زندہ
ہر بگولے سے الجھتی ہیں یہ راہیں میری
دل کی ویران گزرگہ پہ ہیں آسیب بہت
یوں سنور سج کے نکلتی ہیں یہ یادیں میری
بے کلی پھر لیے چلتی ہے اُسی رستے پر
یوں گلے ملتی ہیں ہر موڑ پر ماتیں میری
ساحلوں کی مجھے آواز سنائی دی ہے
نیلگوں انت کو تکتی رہیں آنکھیں میری
*******
|