* اس رفاقت کے سلسے ہوتے *
اس رفاقت کے سلسے ہوتے
درمیاں گر نا فاصلے ہوتے
سوچتے ہیں یہ جانِ جاں اکثر
زخم دل کےے اگر سلے ہوتے
کیسی ہوتی یہ کائنات اگر
تم سے ہم،ہم سے تم ملے ہوتے
عشق محکوم نا رہا ہوتا
دل کو لاحق نا مرحلے ہوتے
پھول ہوتےے یہ دل کے سب ارماں
دھوپ میں ہم نہ گر جلے ہوتے
اٌس نے پھر ہاتھ ہم سےمانگ لیا
ٹوٹ جانے کے حوصلے ہوتے
بات دل کی نہ کہہ سکے اٌن سے
جنبشِ دل پے لب ہلے ہوتے
شائستہ مفتی
|