* مل رہا ہے کوئی سمندر سے *
مل رہا ہے کوئی سمندر سے
ہے وہ ترسا ہوا مقدر سے
کاش لمحوں کا کھیل رک جائے
خواب کا ہے ملن مصور سے
دل کی وحشت کو کام کیا سکھ سے
دل دُکھی ہوگیا تصور سے
بے ارادہ سی دل کی جنبش ہے
اٹھ چکا دل جہانِ دیگر سے
خشک ہونٹوں پہ پیاس تھی لیکن
کچھ نہ کہہ پائے ہم گلِ تر سے
تم ہی کچھ جان لو صدا دل کی
نین کھو کر تمھیں سدا برسے
*******
|