* اِک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گا *
اِک دروازہ کھلتا ہے پریوں جیسے گائوں میں
راہ میں مدھ بن پڑتا ہے اونچے چیڑ کی چھائوں میں
وہ پگڈنڈی جس پر لیلیٰ اب تک رستہ دیکھتی ہے
اب تک سرسوں پھول رہی ہے اُن رنگین فضائوں میں
بوڑھے برگد پر اب تک آسیب بسیرا کرتا ہے
جھولے سونے سونے ہیں ساون کی مست ہوائوں میں
تیرے میرے دل کی کہانی دنیا میں مشہور رہی
رانجھا ہیر کے قصے سنتے آئے رقص کتھائوں میں
وہ بچپن جو اب تک دل میں چھپ چھپ کر مسکاتا ہے
سوچتے ہیں چھوڑ آئیں اس کو دور دراز خلائوں میں
*****
|