* اِک اُس کے ہونے سے دنیا حسین لگتی ہ *
اِک اُس کے ہونے سے دنیا حسین لگتی ہے
اُداس شام سحر کی امین لگتی ہے
بسیط بحر میں ڈوبے ہوئے سفینے کو
قضا کے ہاتھ ابد کی زمین لگتی ہے
بجھائیے نہ یہ مشعل بہت اندھیرا ہے
تمھاری چاہ سے روشن جبین لگتی ہے
خریدنا ہے نئی زندگی کا ہر پرتو!
فسردہ روح دلوں کی مکین لگتی ہے
عدم کے پار مجھے ڈھونڈنا ہے ہونے کو
حیات و موت کی چلمن مہین لگتی ہے
مجھے خبر نہ ہوئی کب یہ کونپلیں پھوٹیں
بہار بن میں بلا کی ذہین لگتی ہے
******
|