* زہرِ قاتل ہی منگا دے کوئی *
زہرِ قاتل ہی منگا دے کوئی
کچھ تو ہستی کو عطا دے کوئی
باغ میں کھلتی ہوئی کلیوں کو
ایک بے نام دعا دے کوئی
محوِ غفلت ہوں تیری دنیا میں
بے ارادہ ہی جگا دے کوئی
ہم سے مجرم کو وفاداری کی
یوں سرِ عام سزا دے کوئی
دل نہ گرمی سے پگھل جائے کہیں
شوق کے دیپ بجھا دے کوئی
بے اماں دشت میں پھرتا ہے کوئی
راستہ گھر کا دکھا دے کوئی
******
|