* اے مرے دل یہ ترے در پہ جو دستک سی ہے *
اے مرے دل یہ ترے در پہ جو دستک سی ہے
مجھ کو لگتا ہے ہوائوں نے محبت کی ہے
میں نے تنہا ہی سنبھالا ہے خزانے کو ترے
زندگی تجھ سے ہر اک رنگ میں الفت کی ہے
راز اب راز نہیں کوئی تری محفل میں
بن پیے بھی ترے لہجے میں جو لرزش سی ہے
لوٹ جاتے ہیں سبھی اپنے گھروندوں کی طرف
دلِ ویراں نے سرِ شام یہ حجت کی ہے
یوں تپش مجھ کو جلائے ہے رُلائے ہے مگر
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہوتی ہے
کہر سا پھیلتا جاتا ہے مری صبحوں میں
ہاتھ جلتے ہیں جو تاروں کی طلب ہوتی ہے
*****
|