* پھول لگتے ہیں کبھی آہ و فغاں کرتے ہ *
پھول لگتے ہیں کبھی آہ و فغاں کرتے ہیں
حرف آئینہ ہیں ہر راز عیاں کرتے ہیں
ایسے بدلے ہیں زمانے میں وفا کے تیور
دل بھی ٹکڑے ہو تو احساس کہاں کرتے ہیں
کتنے موسم ہیں کہ چپ چاپ گزر جاتے ہیں
جانے کس طور سے ہم عمرِ رواں کرتے ہیں
جب نہیں کوئی بھی امیدِ وفا دنیا سے
جانے کیا سوچ کے ہم جاں کا زیاں کرتے ہیں
پھر سناتی ہے ہوا نغمۂ ُپرسوز کہ ہم
موسمِ یاد کی ہر رُت کو جواں کرتے ہیں
******
|