* بھولی بسری سی رہ گزار سہی *
بھولی بسری سی رہ گزار سہی
عمرِ رفتہ کی اِک پکار سہی
ہاتھ سے کوئی تھام لے آکر
زیست آزردۂ بہار سہی
یاد آتا تو ہے وہ شام کے بعد
بے وفا ہے وہ شرمسار سہی
نیند سی آگئی ہے آنکھوں میں
نرم بستر نہیں تو دار سہی
ہے بغاوت کی بو فضائوں میں
تجھ پہ اے دوست اعتبار سہی
******
|