* وجد میں ہے تنہائی ذوقِ دل پکار آئے *
وجد میں ہے تنہائی ذوقِ دل پکار آئے
ہجر کی اکیلی شب کاش باربار آئے
خواب ہیں اُڑانوں کے دور آسمانوں میں
تند باد و باراں پر دل کو اعتبار آئے
زار زرد رستوں پر شور ہے اُداسی کا
صبح کی کرن لے کر موسمِ بہار آئے
وقت کے تغافل سے زندگی کے صحرا میں
ہر نفسِ ارادو پر بارِ انتظار آئے
دوش پر ہواؤں کے اک چراغ روشن ہے
کون جانے کسی پل میں کوئی جاں نثار آئے
*****
|