* خموش آنکھوں کی مسکراہٹ دلوں کو تس *
خموش آنکھوں کی مسکراہٹ دلوں کو تسخیر کر گئی ہے
نہ جانے کیا ماجرا ہوا ہے ہوا کو زنجیر کر گئی ہے
مسافتوں کے طویل دکھ ہیں ذرا مفصل نہ پوچھیے کچھ
گلاب موسم کی سرخ لالی لہو کی تصویر کر گئی ہے
اجاڑ دی تھی غموں کی بستی بھلا دیا تھا غمِ زمانہ
خوشا وہ موسم وہ بھیگی شامیں دکھوں کی تدبیر کر گئی ہے
اُداسیوں کی کڑی رُتوں میں خموش رہنا بھی اِک ہنر ہے
میں اِس ہنر کو سمیٹ رکھوں یہ اپنی تقدیر کر گئی ہے
ذرا خزائوں پہ بھی نظر ہو بہار موسم تو ہر طرف ہے
کہ بن کہے ہی خزاں کی تلخی ہماری تفسیر کر گئی ہے
یہ گنگناتی ہوئی فضائیں یہ زندگی کی اُداس راہیں
مہکتے لمحوں کی چاہتوں کو دکھوں سے تعبیر کر گئی ہے
بھلا دو اے دوست تلخ موسم، نئے زمانے میں دل لگائو
وہ ایک روٹھی اداس رُت تھی جو اپنی تعمیر کر گئی ہے
*******
|