* اندھیری رات میں اشکوں سے جھلملائے *
اندھیری رات میں اشکوں سے جھلملائے غزل
میں چپ رہوں تو وہی بات گنگنائے غزل
سراپا نور بنا ہے یہ چاندنی کا سفر
انھی فضائوں میں دھیرے سے مسکرائے غزل
میں زندگی کی سحر ڈھونڈنے چلی ہوں مگر
شکستہ روح لیے ساتھ ساتھ آئے غزل
ترے خیال کا پرتو، مرے خیال کی آنچ
ہزار رنگ لیے شام گنگنائے غزل
بچھڑ نہ جائیں کہیں راستے منازل کے
چراغ بن کے اندھیرے میں جگمگائے غزل
بہت عزیز ہیں مجھ کو بہار کے موسم
بہار آئے تو غم کے دیے جلائے غزل
چلو اے دوست بہت دیر ہو گئی اب تو
کھڑی ہے کب سے درِ شب پہ سر جھکائے غزل
******
|