* اپنے اشکوں سے نکھر کر جگمگا اٹھتی *
اپنے اشکوں سے نکھر کر جگمگا اٹھتی ہے رات
دل کی ویرانی میں اکثر مسکرا اٹھتی ہے رات
بے سبب ہے کیوں اُداسی چھیڑیے نغمہ کوئی
حالِ دل، حالِ چمن پر گنگنا اٹھتی ہے رات
شہر کی خاموشیاں معنی نہیں رکھتیں کوئی
ایک محفل دل کی ہے سو چہچہا اٹھتی ہے رات
دُور صحرائوں میں ساتھی گیت گاتے ہیں مرے
اور میرے ساتھ رقصاں گیت گا اٹھتی ہے رات
جھوم کر آتی ہے میرے پاس یادوں کی مہک
اور آنکھوں کی چمک سے جھلملا اٹھتی ہے رات
******
|