* بیت چکا تنہائی کا موسم اب لوگوں می *
بیت چکا تنہائی کا موسم اب لوگوں میں رہا کرو
بھینی بھینی رات کی رانی مہکے تو خوش ہوا کرو
اُودے کالے بادل جب بھی جھوم کے رم جھم برسیں گے
اپنے بچپن کی یادوں کو اوڑھ کے سپنے بنا کرو
میں آنکھوں کو بند کیے ہوں تم بھی آنکھیں مت کھولو
سپنوں کے جس موسم میں رہتے ہیں ہم تم رہا کرو
جس انگور کی چھائوں میں خوش حال زمانے گزرے ہیں
اس کی خاطر آتے جاتے کچھ لمحوں کو رُکا کرو
بستی بستی گھوم چکے ہو، سیلانی گھر لوٹ چلو
اپنی دنیا اِک گھر آنگن، اِس آنگن میں بسا کرو
*****
|