* ساحل کی ہوا پوچھنے نکلی ہے سحر سے *
ساحل کی ہوا پوچھنے نکلی ہے سحر سے
شاعر ہے کہ وحشی ہے جو گزرا ہے اِدھر سے
گزرے ہیں ترے بعد بھی کچھ لوگ نگر سے
لیکن تری خوش بو نہ گئی راہ گزر سے
بستی میں ترے نام کا چرچا بھی بہت تھا
کچھ ہم بھی تھے مجبور دلِ سادہ نظر سے
ہے کون دریچے میں سرِ شام سے مضطر
ہے کون پریشان یہاں پچھلے پہر سے
سنتے ہیں کہ آنکھوں میں کئی رنگ ہیں پنہاں
رنگین ہوا عکس مرا زخمِ جگر سے
معدوم ہوئے جاتے ہیں چاہت کے فسانے
نکلے ہیں جو اِس بار ترے شیش نگر سے
******
|