* زخمِ دل سی کے مسکرانا کیا *
زخمِ دل سی کے مسکرانا کیا
زندہ رہنے کا ہے بہانہ کیا
پاس تھا درد جب تھی تنہائی
بزمِ انجم میں جی جلانا کیا
بیتے موسم کہاں تلاش کریں
بھولی راہوں میں دکھ اٹھانا کیا
یوں نہ برسے تھے ٹوٹ کر بادل
جل گیا کوئی آشیانہ کیا
سازِ دل ٹوٹ کر بکھر بھی گیا
گیت ساون کا گنگنانا کیا
جانے کیا کھو دیا کہ یاد نہیں
کھو دیا کیا، ہے اور پانا کیا
رات ٹھہری ہے بام پر ساقی
دیپ اشکوں کے جھلملانا کیا
******
|