* اس بڑے شہر کی سرحد سے ذرا دور کہیں *
اس بڑے شہر کی سرحد سے ذرا دور کہیں
کچے آنگن میں روایات کے ُگل کھلتے ہیں
میری دہلیز کے بوسیدہ کواڑوں سے ابھی
عہدِ رفتہ کے مدھر ساز و سخن بجتے ہیں
سوچ کی اَدھ ُکھلی کونپل کی خدا خیر کرے
آگ جنگل میں بھڑکتی ہے چمن دہکتے ہیں
لے کے آنکھوں میں تری یاد کے جگنو اکثر
اشک دریاؤں کے پانی میں دیے جلتے ہیں
موجۂ دہر سے احساس بچا کر ہم نے
وقت کے سیل میں تنکوں پہ شجر رکھتے ہیں
شہر کا شہر چلا آیا بجھانے کے لیے
آس اُمید کے جنگل میں دیے جلتے ہیں
کتنا معصوم ہے الفاظ کے لہجے کا طلسم
لب جو گویا ہوں تو احساس کے در ُکھلتے ہیں
*****
|