* شام آ پہنچی ہے جنگل میں سفر باقی ہے *
شام آ پہنچی ہے جنگل میں سفر باقی ہے
شبِ آشفتہ ترے غم کی سحر باقی ہے
کوئی شکوہ نہ شکایت ہے مگر آنکھوں میں
برہمی ہے کہ کوئی تیرِ نظر باقی ہے
کوئی جنبش نہ ہوئی رات کے ایوانوں میں
کون کہتا ہے کہ نالے میں اثر باقی ہے
حادثہ یہ بھی گزرنا تھا ہمارے دل پر
سب کا احوال سنا اپنی خبر باقی ہے
کون مقتل کی طرف شوقِ سفر کر بیٹھا
دل میں سودا یہ سمایا ہے کہ سر باقی ہے
وقت مرہم کی طرح آیا ہے تنہائی میں
اے مرے دوست ترا زخمِ جگر باقی ہے
*****
|