ڈھونڈیئے جائے اماں کہ شہر اب ویران ہے
قربتوں میں فاصلوں کا اک نیا امکان ہے
بستیوں نے ڈال رکھے ہیں سکوتِ سائباں
اپنے غم میں رونے والی آنکھ بھی انجان ہے
ہم سمجھتے تھے کہ ہے کارِ جہاں سرسبز تر
چہرہءگل شبنمی اشکوں کی اک مسکان ہے
خواہشوں کے سارے موسم تشنگی میں کٹ گئے
آج پھر دستک سی ہوتی ہے،کوئی مہمان ہے؟
ہم نے پہچانانہیں شاید یہی ہے اپنا گھر
راستہ دیکھاخزاں نے جس کا وہ دالان ہے
قیدِتنہائی تجھے رسوانہیں ہونے دیا
مسکرا کر کہہ دیا،یہ رشتہءپیمان ہے
*****