خیال ڈوب رہا ہے مہیب ماضی میں کہ اس خیال کو چھو لوں قریب سے اک بار شب وصال مرے گھر بہ آ کے لوٹ گئ کہ مہربان ہوئ تھی نصیب سے اک بار شائستہ مفتی