آسیب صحنِ گلشن میں آج پھر کلیاں مسکرا کر بلا رہی ہیں ہمیں اور ہونے لگی ہے سرگوشی جیسے گزرے ہوئے سبھی موسم آنے والی ہوائوں کی لے پر گیت جادو بھرا سناتے ہیں زندگی کے تمام حزن و ملال ایک آسیب بن کے آتے ہیں *****