donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
design_poetry
Share on Facebook
 
Shaista Mufti Farrukh
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
* آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی *
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی


آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
جانے کس دہر سے آیا ہے یہ طوفانِ بلا
یہ جو طوفان کہ اِس میں ہیں کھنڈر خوابوں کے
ٹوٹتے خواب ہیں دھندلی سی گزر گاہوں کے
اَن کہی کوئی کہانی کوئی جلتا آنسو
آکے دامن پہ ٹھہرتا ہوا بے کل شکوہ!
چپ سی سادھی ہے مرے      ُبت نے
مگر آنکھوں میں۔۔۔
میرے ہر تاج محل کی ہے حقیقت واضح
جس میں رہتی ہے وہ شہزادی جسے قدرت نے
دل دھڑکتا ہوا بخشا ہے بدن پتھر کا

میں نے دیکھا ہے کہ وہ رات کے اندھیاروں میں
اپنے خوابوں کے محل خود ہی جلا دیتی ہے
اپنے ٹوٹے ہوئے پر خود ہی چھپا دیتی ہے
اپنے اشکوں کے دیے خود ہی بجھا دیتی ہے
خودہی اپنے لیے لکھتی ہے سزائوں کی کتاب
اپنے ہاتھوں سے چھپا دیتی ہے زخموں کے گلاب

آج لگتا ہے سمندر میںہے طغیانی سی
آج لرزش سی ہے پیروں میں، تھکن سانسوں میں
کرچیاں چبھنے لگی ہیں جو مری آنکھوں میں
آج لازم ہے کہ چپ چاپ گزر جائے شام
کوئی آہٹ ہو نہ دستک نہ ہی چھلکے کوئی جام
آج آئینے سے کترا کے گزر جانا ہے
آج شب گھور اندھیرے میں اتر جانا ہے
پھر نیا دن نئی مسکان جگالائے گا
شب کا طوفان کناروں سے اُتر جائے گا
آج لگتا ہے سمندر میں ہے طغیانی سی
******





 
Comments


Login

You are Visitor Number : 327