* میں اگر دُور— کہیں دُور بسائوں دنی *
فرار
میں اگر دُور— کہیں دُور بسائوں دنیا
جس جگہ میں ہوں، مرے ساتھ یہ تنہائی ہو
جس جگہ مجھ سے فقط میری ملاقات رہے
میری چاہت کے حوالے مری سچائی ہو
میں اگر دُور— کہیں دُور بسائوں دنیا
میرے لہجے کا ترنّم مرا سرمایہ ہو
میری ہر سانس میں اُمید کی خوش بو مہکے
روشنی رنگِ گلِ لالہ کا اِک سایہ ہو
میں اگر دُور— کہیں دُور بسائوں دنیا
وہ جہاں جس میں شب و روز کے آزار نہ ہوں
ٹھہرے پانی کی طرح وقت سہج کر گزرے
مسکرانے کے لیے خواہشیں درکار نہ ہوں
اب تو سو چا ہے کہ اِس دور میں آنکھوں کے لیے
روشنی مانگ کے لائیں گے کسی جگنو سے
راستے میں جو بکھر جائیں مرے خواب اگر
دار کے پھول مہک جائیں گے اِس خوش بو سے
میں اگر دُور— کہیں دُور بسائوں دنیا
*****
|