* ایک اُمید کا دیا تنہا۔۔۔ *
ماہِ اُمید۔۔۔
ایک اُمید کا دیا تنہا۔۔۔
جب اندھیرے میں گھر بناتا ہے
کسی قدر آس اور اُمنگوں سے
اپنے ہونے پہ مسکراتا ہے
جانیے کیا کہ بے خبر ہے وہ
اِس ستم کی اندھیری چالوں سے
اس اماوس کے پار کون گیا
کون لایا خبر اُجالوں سے
ایک امید کا دیا تنہا۔۔۔
جب ہمکتا ہے میرے دامن پر
کس قدر درد دل میں اٹھتا ہے
اُس کے روشن سجیلے نینن پر
روشنی گر نہ دے سکی اُس کو
میرا وعدہ ہے راستہ دوں گی
ان گھنے جنگلوں کی سرحد تک
جانے والوں کا نقشِ پادوں گی
ایک امید کا دیا تنہا۔۔۔
میرے آنگن میں جھلملاتا ہے
جس کی مدھم سی روشنی میں مجھے
اس کے ہونے پہ پیار آتا ہے
*****
|