* یوں سمندر کے کنارے تجھے اکثر دیکھ *
نقشِ پا
یوں سمندر کے کنارے تجھے اکثر دیکھا
جیسے اِک سوچ تری آنکھ میں بھر آئی ہے
موج در موج تلاطم کے فسانے سن کر
بات کچھ ہے— جو ترے لب پہ ہنسی آئی ہے
یوں سمندر کے کنارے تجھے اکثر دیکھا
تنِ تنہا ترے قدموں کے نشاں جاتے ہیں
بھولنے والے تجھے بھول کے بھی ساحل پر
تیرے قدموں کے نشاں یاد بہت آتے ہیں
******
|