* عدم کے رستے *
عدم کے رستے
یہ میری دیوانگی یہ وحشت
مجھے کہاں لے چلی ہے جانم
یہاں کے سرو سمن اکیلے
یہاں کے جھرنے یہاں کے پربت
اُداس سوچوں میں گم سے کیوں ہیں؟
اے میرے مالک یہ تیری فطرت
یہ تیری قدرت یہ تیری ہستی
تھکی تھکی سی اُجاڑ کیوں ہے؟
یہ چاندنی کی اُداس خوش بو مرے سراپے کو ڈس رہی ہے
اے میرے مالک یہ تیری دنیا
کہ جس میں سب ہیں فقط تماشا
فقط زمیں کے حقیر ٹکڑے
تو پھر یہ سوچوں کا ایک ریلا۔۔۔
مری رگ و پے میں کیوں رواں ہے
مری شبوں کو اجاڑتا ہے
یہ کیوں مرے دل کو توڑتا ہے؟
اے میرے مالک اے میرے ہمدم
تو مجھ کو سنگِ گراں سمجھ کر
کسی سمندر میں غرق کردے!
نئی مسافت کی اورپر تو
عدم کے رستے پہ دان کردے—!
*****
|