* وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو *
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو
ہوا ہے جو کچھ اسے بھلا دو
میں اُن سے کہہ دوں
کہ اب یہ ممکن نہیں رہا ہے
وہ رنجِ ہستی کہ زہر بن کر
مرے لہو میں سما چکا ہے
مرے تصور میں بس چکا ہے
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
ہوا ہے جو کچھ اُسے بھلا دو
میں رات دن کی اُدھیڑ ُبن میں
وہ کرچیاں بھی سمیٹ لوں گی
جو میری آنکھوں میں چبھ رہی ہیں
جو میری سانسوں کو ڈس رہی ہیں
مجھے یقیں ہے کہ کانچ کا یہ حسین دھوکا
فریب کابے کراں سراپا
ذرا سی آہٹ سے گر پڑے گا
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرا دو
ہوا ہے جو کچھ اُسے بھلادو
سنو!
یہ ممکن نہیں رہا اب!
کہ میرا دل، میرا خوش نظر دل
کوئی تسلی نہیں سنے گا
کوئی حوالہ نہیں سنے گا
میں جانتی ہوں۔۔۔
یہ میرا وحشی اُداس دل ہے
جو تجھ سے مجھ سے الگ تھلگ ہے
اُسے منانا نہیں ہے ممکن
اُسے تو جنگل کی آس ہے اب
تلاش یادوں کی باس ہے اب
مجھے تو حیرت سی ہورہی ہے—
وہ مجھ سے کہتے ہیں مسکرادو
*****
|