* آج پھر موسموں سے پوچھا ہے *
ہم راز
آج پھر موسموں سے پوچھا ہے
کوئی پیغام لائے ہواُن کا؟
کوئی آہٹ کوئی خیال سہی
دل کا درماں کہ عرضِ حال سہی
کاش تم نے مصوری کی ہو
مجھ سے مل کر وہ شاعری کی ہو
تم نے جانا ہے میرے دل کا حال
پرسشِ غم کی دلبری کی ہے
ایک دھوکا سہی خیال سہی
کس قدر تم سے حوصلہ ہے مجھے
کس قدر زیست پروری کی ہے
میری چاہت کو تم نے سمجھا ہے
میرے اشکوں سے عاشقی کی ہے
******
|