* ننھا منا سااِک حسیں بچہ *
دلِ تنہا
ننھا منا سااِک حسیں بچہ
بیچ چوراہے پہ کھڑا ہوگا
بھول کر راستہ نشیمن کا
آشیانے کو ڈھونڈتا ہوگا
بھیڑ میں اجنبی سے چہروں میں
اِک شناسا کو ڈھونڈتا ہوگا
میں نے چاہا بہت کہ روکوں اسے
پاس بٹھلائوں اور پوچھوں اسے
اتنی کچی سی عمر میں تو نے
اس قدر وحشتوں کو کیوں پالا
زیست کو منتشر بنا ڈالا
اس کی افسردگی پہ دکھ ہے مجھے
اُس کی دیوانگی پہ دکھ ہے مجھے
مجھ سے کہتا ہے وہ حسیں بچہ
میں تو کچھ مانگتا نہیں رب سے
ہوں میں تنہا یہاں وہاں کب سے
ساتھ تھی ماں ابھی ابھی میرے
ایک آسیب کی طرح کب سے
سوچتا ہوں کہ اب کدھر جائوں
اس کو ڈھونڈوں کہ خود بکھر جائوں
******
|