* آہستہ آہستہ سے *
سنگسار
آہستہ آہستہ سے
تنہائی کی جھانجھر لے کر
من کے سونے مندر میں
اترے تھے
اور اِک
انجانی سی خوشبو پاکر جھوم اٹھے تھے
لیکن۔۔۔!
اب وہ مندر
راکھ کا اِک ڈھیر بنا ہے
میں نے—
ُاُس مندر کو توڑا
نظریں پھیر کے منہ کو موڑا
سوچتے تھے کہ
اپنی دنیا شاد کریں گے
لیکن مجھ کو نہیں پتا تھا
اُن بوسیدہ دیواروں میں
اُن سونی محرابوں میں
میری خوشیاں پنہاں تھیں
میں نے اُس مندر کو توڑا
اپنے جی کو آپ دُکھایا
آج میں دکھ کا چہرہ لے کر
ڈھلتا سورج دیکھ رہی ہوں
اپنی دنیا
آپ جلا کر سوچ رہی ہوں
میں نے دل پر وار کیا تھا
خود کو سنگسار کیا تھا
*****
|