* کس طور اُدھر جائیں۔۔۔؟ *
کس طور اُدھر جائیں۔۔۔؟
ہم لوٹ کے گھر جائیں—؟
کس طور اُدھر جائیں—؟
کیا ہے جو ہمارا ہے؟ کیا ہے جو سہارا ہے؟
ہم خاک بسر ہوکر رستوں سے گلے مل کر
راہوں میں نہ کھو جائیں؟
کس طور اُدھر جائیں—؟
یہ رات جو اندیشہ، بن کر ہمیں ڈستی ہے
کچھ کہتی نہیں پھر بھی نیزے کی اَنی جیسے
بن کر ہمیں چبھتی ہے
اِک آس کی چنگاری
جلتی ہے نہ بجھتی ہے
اے کاش کہ ساحل سے اِک بار گلے مل کے
ساغر میں اتر جائیں
کس طور ادھر جائیں—؟
******
|