* کہاں کوئی خواب سے پکارے *
چھوٹی سی دنیا
کہاں کوئی خواب سے پکارے
کہاں کوئی ساتھ ساتھ آئے
یہ دور جس میں رہے ہیں ہم تم
عجب حوادث کا دور جانم
مری نگاہوں کے سلسلے بھی
تمھاری ہستی کے آبِ گم میں
تمھیں بہت دیر سے پکارے
تمھاری آہٹ کے اَن سنے ُسر
تمھارے احساس کی مدھر لے—
کو اپنی سانسوں میں یوں بسائیں
کہ جیسے دھڑکن کا یہ تسلسل
تمھاری چاہت سے بندھ گیا ہے
تمھاری چاہت بھری نگاہیں
مرے تعاقب میںگھو متی ہیں
یہ دور جس میں رہے ہیں ہم تم
مری تمھاری محبتوں کے یہ تذکرے بھی
عجیب آسیب کی کہانی سے لگ رہے ہیں
فریبِ جاں کے یہ سلسلے بھی
کسی حقیقت کا عکس جیسے
مرے سوالوں کے سب جوابوں میں ڈھل رہے ہیں
یہ دور جس میں رہے ہیں ہم تم
یہ دور جس نے دیے ہیں ہم کو
اکیلی راہیں— اکیلی شامیں
میں سوچتی ہوں کہ تم سے کہہ دوں
ابد کے اُس پار جا بسائیں
اک اپنی چھوٹی سی دل کی دنیا
******
|