* زندگی تھی بہت حسین کبھی *
خراج
زندگی تھی بہت حسین کبھی
یادِ یارانِ بے وفا کی طرح
دھوپ کی اوٹ سے کھلے تھے کنول
لب و رخسارِ دل رُبا کی طرح
رقص میں زندگی تھی راہوں پر
ساری دنیا سے دوستانہ تھا
شوق کے دیپ جل رہے تھے جہاں
اُن منڈیروں پہ ہی ٹھکانہ تھا
کاسۂ کائنات میں جانم
ہم تغیر کے اِک سفیر رہے
مستقل کوئی بھی پناہ نہیں
روح اور جسم کے اسیر رہے
مسکرانے کا قرض ہے ہم پر
قرض یہ ہر نفس ُچکانا ہے
کرچیاں خود ہی ہاتھ سے ُچن کر
زندگی بھر فریب کھانا ہے
چاہتی ہوں کہ تم سے میں کہہ دوں
یہ جو اِس خواب کی لکیریں ہیں
سوچ کے بحر میں جو بکھری ہیں
راستوں میں بچھی صلیبیں ہیں
ہم کو ان کا خراج دینا ہے
زندہ رہنے کا بار سہنا ہے
*****
|