* رات کے شہر بتا تونے کبھی دیکھا ہے *
رات کا شہر
رات کے شہر بتا تونے کبھی دیکھا ہے
چاند چڑھتے ہوئے جھیلوں سے پرے وادی میں
کیسے ُکھلتے ہیں یہ اسرار اکیلی شب کے
کون دھیرج سے اُتر آتا ہے اِس بستی میں
کون کہتا ہے کہ خوش ُبو پہ بٹھا دو پہرے
یہ جو خوش ُبو کہ دیے جاتی ہے دستک دل پر
دے رہی ہے یہ خبر راہ میں ہے ابرِ بہار
قافلے پھر چلے آئے ہیں درِ مقتل پر
رات کے شہر کی ویران گزرگاہوں پر
فطرت انگیز فضاؤں میں خموشی کے یہ پل
سہے جاتے ہیں فقط ایک ہی احساس لیے
لمحہ لمحہ کسی آہٹ کے گماں میں بے کل
رات کے شہر کی خاموش اُداسی کے تلے
ایک بھٹکا ہوا انسان تجھے ڈھونڈتا ہے
اپنے معبد سے بچھڑ جانے کے غم میں اکثر
ڈوبتے تارے کی مانند پوچھتا ہے
******
|