* اُن سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے *
اُن سے ملنے کا ارادہ ہے قضا سے پہلے
کیوں نہ دل کھول کے جی لوں میں سزا سے پہلے
اِس حوالے سے ہی شاید اُسے پہچان سکوں
خود کو پہچان لوں گر اپنے خدا سے پہلے
زرد موسم کی تھی تمثیل مری آنکھوں میں
رنگ کچھ اور بھی گزرے ہیں خلا سے پہلے
وقت معدوم ہے اور دہر کے انداز جدا
کچھ بھی ممکن ہے مقدر میں قضا سے پہلے
تیری محفل کی طرف لوٹ کے جائوں کیسے
پوچھ تو لوں دلِ آشفتہ ادا سے پہلے
کیسے اس خواب کو ٹوٹا ہوا دیکھے گی سحر
شوق کے دیپ بجھادوں میں جفا سے پہلے
*****
|