* روح کا ترنّم تھا گیت تھا ہوائوں کا *
روح کا ترنّم تھا گیت تھا ہوائوں کا
خواب ناک منظر میں رقص اپسرائوں کا
ُپرشکوہ پیڑوں سے بادلوں کی سرحد تک
گونج تیرے لہجے کی، عکس اُن وفائوں کا
برف کے قبیلے میں خواب بیچنے والا
شاعری کے لہجے میں روپ ہے دعائوں کا
بے کلی مرے دل کی لے چلی تھی جنگل میں
دور تک درختوں پر راج تھا خزائوں کا
اک مہیب تنہائی روح میں ٹھٹھرتی ہے
ہے اُداس ہر بچہ آج میرے گائوں کا
کیوں تمھاری محفل میں یک نفس خموشی ہے
ذوق خوش اُداسی میں ڈھل گیا نوائوں کا
*****
|