* موسمِ گل ہے لگے گلشن کو ویرانے کا خ *
موسمِ گل ہے لگے گلشن کو ویرانے کا خوف
بادباں کھولیں تو ساحل دور ہو جانے کا خوف
پھر خلش اٹھی ہے دل میں بزمِ انجم میں چلیں
پھر مچل کر دل میں جاگا ہے بکھر جانے کا خوف
سایہ سایہ شام لمحوں کی نہیں پابند کچھ
ہو اندھیرا دل میں تو سورج کے گہنانے کا خوف
راہبر ہر زندگی کے موڑ پر دشتِ گراں
خواب مت دِکھلا کہ ہے مجھ کو سحر آنے کا خوف
لمحہ لمحہ اشک بنتی زندگی کو کیا کہیں
تیز ہو بادِ رواں تو دیپ بجھ جانے کا خوف
ہے بہت نزدیک میرے گھر سے ساحل کی ہوا
جب چلے آندھی تو تنکوں کے بکھر جانے کا خوف
******
|