* خاموش اُمنگوں کا سفر دیکھ رہے ہیں *
خاموش اُمنگوں کا سفر دیکھ رہے ہیں
ہم چاہنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
گزرے ہوئے موسم کا اثر ہے کہ یہ ہم ہیں
ہر سمت خزائوں کے شجر دیکھ رہے ہیں
اِک دیپ جو جلتا ہے اندھیرے میں شبِ غم
ہم آئینۂ دل میں شرر دیکھ رہے ہیں
جگنو ہے کہ شبنم ہے کہ تارہ ہے کہ تم ہو!
ہم تیرگیٔ شب میں سحر دیکھ رہے ہیں
یہ واہمۂ دل ہے کہ تقدیر کی اک چال
ہم اپنی دعائوں میں اثر دیکھ رہے ہیں
دیوانگیٔ شوق کو کیا کیجیے اے دوست!
ہم سحر زدہ شہر میں گھر دیکھ رہے ہیں
*****
|