* حیران یہ نظریں ہیں گم صم سی اداسی ہ *
حیران یہ نظریں ہیں گم صم سی اداسی ہے
موہوم سی شبنم ہے جو آنکھ پہ طاری ہے
لٹنے کا ترے اے دل نوحہ نہ کریں گے ہم
چپ چاپ اُجڑ جائیں یہ آن ہماری ہے
تم جان نہ پائو گے چشمہ ہے جو یہ پھوٹا
پتھر کی چٹانوں کا دل درد سے بھاری ہے
یہ راز نہیں آساں اِس خواب سی دنیا میں
ہر درد میسر ہے ہر زخم ہی کاری ہے
افلاک کو چھو جائیں اِفکار مرے لیکن
آنگن کے دریچوں پر زنجیر جو بھاری ہے
اِس دور میں انساں کا یہ درد انوکھا ہے
تنہائی جزیروں میں تقدیر ہماری ہے
*****
|