* لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی ت *
غزل
٭………شمیم فاروقی
لوگوں کا کیا قصور کہ نادان میں ہی تھا
اپنی حماقتوں سے پریشان میں ہی تھا
مجبور تھا وہ حوصلہ کس پر نکالتا
اس کے لئے تو شہر میں آسان میں ہی تھا
میرا ہی خوف اُس کو برابر لگا رہا
یہ جانتے ہوئے کہ نگہبان میں ہی تھا
منظر کی سمت اب کے کسی کی نظر نہ تھی
سب مجھ کو تک رہے تھے کہ حیران میں ہی تھا
دنیا سمجھ رہی تھی کہ ہوگا کوئی فقیر
کتنی عجیب بات کہ سلطان میں ہی تھا
پھر بھی وہ مجھ سے دور بہت دور تھا شمیم
حالاں کہ اُس کی آخری پہچان میں ہی تھا
٭٭٭٭
|