|
|
|
Shared Successfully.
|
|
|
|
* گھرسے نکلے ہیں تو گھر یاد آیا *
غزل
ھائے وہ دیدہ ء تر یاد آیا
گھرسے نکلے ہیں تو گھر یاد آیا
پھر محبت کا نگر یاد آیا
کشتی ، پتوار ، بھنور یاد آیا
بےسکوں شہر کی ان گلیوں میں
پُر سکوں گاوں کا گھر یاد آیا
دیکھ کر تیرا سراپا مجھ کو
دست_ تخلیق_ ہنر یاد آیا
دل کے دروازے پہ دستک سن کر
وا ھوا پیار کا در یاد آیا
دیکھ کر نامہء اعمال اپنا
کچھ نہیں رخت_ سفر یاد آیا
تیری یادوں کے سہارے جاناں
جو کیا ہم نے سفر یاد آیا
تیرے سنگ بھیڑ میں چلتے چلتے
راہ کا تنہا شجر یاد آیا
کیسے ٹوٹے تھے کنارے دل کے
کیسے اُجٹرا تھا نگر یاد آیا
ایک طوفان اٹھا تھا شوکت
ایک پھیلی تھی خبر یاد آیا
ناز پھر آئے ہو ان گلیوں میں
کون رہتا تھا کدھر ، یاد آیا ؟؟
شوكت على ناز
|
|
|
|
|
|
|
|
|
You are Visitor Number : 341
|
|
|
|