* رتجگے نیند سے برباد نہ ہو جائیں کہ *
غزل
کاسہء دل کو ترے در سے الگ رکھتا ہوں
میں کہ آئینے کو پتھر سے الگ رکھتا ہوں
رتجگے نیند سے برباد نہ ہو جائیں کہیں
آنکھ کو خواب لشکر سے الگ رکھتا ہوں
نقدِ جاں کوچہء قدرت میں لٹا کر ہر بار
خود کو زنجیرِ مقدر سے الگ رکھتا ہوں
اپنی تنہائی کو محفل کے عوض کیوں بیچوں
اس لئے خود کو بھرے گھر سے الگ رکھتا ہوں
بھوک سے مرنے نہیں دیتا پرندہ کوئی
ان کے حصے کو برابر سے الگ رکھتا ہوں
تندئ بادِ مخالِف کا نہیں خوف مجھے
زورِ پرواز ترے پر سے الگ رکھتا ہوں
چھوڑ آیا تیری دہلیز پہ آنکھیں اپنی
موجِ کو نازؔ سمندر سے الگ رکھتا ہوں
شوکت علی ناز
|